Pakistan Tehreek-e-Insaf

Pakistan Tehreek-e-Insaf
News Update :
Home » » کعبہ معظمہ کی تعمیری ِ تاریخ

کعبہ معظمہ کی تعمیری ِ تاریخ

Penulis : Unknown on Friday 27 November 2015 | 11:36


کعبہ معظمہ کی تعمیری ِ تاریخ


حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے"تاریخ مکہ" میں تحریر فرمایا ہے کہ"خانہ کعبہ" دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:

(۱)سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک “بیت المعمور” کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔ بیت المعمور جو کہ فرشتوں کا کعبہ ہے ۔ جس کا طواف فرشتے کرتے ہیں۔

(۲) پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔

(۳) اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزند حضرت شیث علیہ السلام نے اس عمارت کو تعمیر کیا۔ اس کے بعدطوفان نوح علیہ السلام میں یہ عمارت غائب ہوگئی۔ جو کہ کئی سوسال تک دوبارہ تعمیر نہ کی جاسکی ۔

(۴) اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔ 
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم الٰہی ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ تو آپ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیلؑ علیہ السلام کو لے کر روانہ ہوگئے اور اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ پانی تھا اور نہ یہاں کوئی رہتا تھا۔ درختوں کے نام پر صرف ببول وغیرہ کی جھاڑیاں تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام نے بیوی بچے دونوں کو یہاں بٹھا دیا۔ ایک مشکیزہ پانی کا اور کھجوریں پاس رکھ دیں اور پھر آپؑ شام کی طرف چلے گئے۔ حضرت ابراہیمؑ دوسری بار مکہ آئے تو قیام نہ کیا لیکن جب تیسری بار تشریف لائے تو حضرت اسماعیلؑ علیہ السلامسے فرمایا کہ ’’بیٹا! اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے‘‘۔ حضرت اسماعیلؑ علیہ السلام نے کہا: ’’تو اطاعت کیجیے‘‘۔ پوچھا: ’’کیا تُو میری مدد کرے گا؟‘‘ کہا: ’’کیوں نہیں‘‘۔ حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام نے کہا: ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بناؤں‘‘۔
گھر کی تعمیر شروع ہوئی، حضرت اسماعیلؑ علیہ السلام پتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام بناتے جاتے تھے۔ جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیلؑ ایک پتھر اٹھاکر لائے تاکہ حضرت ابراہیمؑ اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کریں۔ (یہی مقام ابراہیمؑ ہے) دونوں باپ بیٹے دیوار اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے۔
’’اے پروردگار! ہم سے قبول فرما، تُو سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘
کہتے ہیں اس وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر بیس سال تھی، حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام نے بیت اﷲ کے پہلو میں حجر کو حضرت اسماعیلؑ علیہ السلام کی بکریوں کا باڑہ بنایا تھا اور اس پر پیلو کی چھت ڈالی تھی۔ پہلے بیت اﷲ کی جگہ ایک سرخ ٹیلہ تھا۔ اکثر سیلاب ادھر ادھر سے اسے کاٹتا رہتا تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام تعمیر کعبہ سے فارغ ہوگئے تو حضرت اسماعیلؑ علیہ السلام سے ایک ایسا پتھر لانے کو کہا جو آغاز طواف کے لیے نشانی کے طور پر استعمال ہوسکے۔ یہ پتھر حضرت جبرئیل علیہ السلام ابوقبیس کی پہاڑی سے لائے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسے اس مقام پر رکھ دیا جہاں وہ اب قائم ہے۔ 

(۵) قوم عمالقہ کی عمارت کی تعمیر میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔

(۶) اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔ 

(۷) قریش کے مورث اعلیٰ “قصی بن کلاب” کی تعمیر۔ 

(۸) قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ 

قریش کی جانب سے تعمیر نو رسول اﷲ ؐ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ قریش نے تعمیر کے لیے جو حلال مال جمع کیا تھا وہ کافی نہیں تھا اس لیے حجر کی طرف چھ ہاتھ ایک بالشت جگہ کم کردی گئی تھی۔ حجر کے پیچھے ایک چھوٹی سی گول دیوار بنادی تھی تاکہ لوگ اس کے باہر طواف کریں، کعبہ کے اندر انھوں نے دو صفوں میں چھ ستون رکھے تھے جس پر چھت تھی۔ اس سے پہلے کعبہ پر چھت نہیں تھی۔ دروازہ ایک رکھا تھا، چھت کی بلندی اٹھارہ ہاتھ تھی۔

(۹) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اور ایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔ 

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ رضی اللہ عنہ کی تعمیر بیت اﷲ کے بارے میں روایت ہے کہ ’’انھوں نے تین دن تک استخارہ کرنے کے بعد کعبہ کو بالکل زمین کے برابر کردیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بنیاد کو بھی کھدوایا تو دیکھا کہ وہ چھ ہاتھ اور ایک بالشت حجر اسماعیل میں داخل ہے لہٰذا آپ نے انھی بنیادوں پر تعمیر کی۔ ایسا انھوں نے حضرت عائشہؓ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث کی بنا پر کیا۔
حضرت زبیرؓ رضی اللہ عنہ نے کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ رکھی تاکہ عرض کے مناسب ہوجائے۔ ایک دروازہ داخلے کے لیے اور ایک باہر جانے کے لیے بنایا۔ دونوں دروازے سطح زمین کے برابر تھے، ہر دروازے کی لمبائی گیارہ ہاتھ تھی اور دو پٹ تھے۔ آپ نے کعبہ کے چار ستون بنائے۔آپ کے زمانے میں یہ چاروں ستون چومے جاتے تھے۔ اپ نے رکن شامی کی جانب ایک زینہ اوپر جانے کے لیے بنایا تھا اور اسے سونے سے مزین کیا تھا۔ چھت پر پرنالہ رکھا تھا جو حجر میں گرتا تھا۔
جس دن کعبہ شریف کی تعمیر مکمل ہوئی وہ دن عجیب تھا۔ اس دن بہت سے غلام آزاد کیے گئے اور بہت سی بکریاں ذبح کی گئیں۔ حضرت زبیرؓ رضی اللہ عنہ ننگے پاؤں نکلے۔ آپ کے ساتھ بہت سے قریش بھی برہنہ پا تھے حتیٰ کہ قنعم کے مقام پر مسجد عائشہ پہنچے اور عمرہ کا احرام باندھا کہ اﷲ نے انھیں ابراہیمی تعمیر پر تعمیر کعبہ کی توفیق عطا کی۔
ابن زبیر کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص نے محاصرے کے زمانے میں مسجد حرام کے کسی خیمے میں آگ جلائی۔ خیمے میں آگ لگ گئی جو بڑھتے بڑھتے کعبہ تک پہنچ گئی اور اس نے غلاف کعبہ اور رکن یمانی جلا ڈالا۔ یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ دس سال بعد 74 ہجری میں حجاج نے اس بنا پر کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ میں اضافہ کیا تھا اور ایک دروازہ مزید بنادیا تھا، اسے گرا کر قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔
تاریخ مکہ میں ہے کہ خانہ کعبہ کی ہر ایک چیز عبداﷲ بن زبیرؓ رضی اللہ عنہ کی بنائی ہوئی ہے۔ سوائے اس دیوار کے جو حجر میں ہے۔ وہ حجاج کی بنائی ہوئی ہے۔ اسی طرح مشرقی دروازے کی چوکھٹ اور وہ اندرونی سیڑھی جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہے۔

(۱۰) عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کے بنائے ہوئے کعبہ کوحطیم کی جانب سے ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔

اس کے بعدکی بھی تعمیر کاتذکرہ تاریخ میں ملتا ہے
عثمانی سلطان مراد رابع کے زمانے میں 19 شعبان 1039 ہجری کو صبح 8 بجے مکہ اور اس کے اطراف میں شدید بارش ہوئی۔ بارش سے سیلاب حرم شریف میں داخل ہوگیا اور کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ سے بھی بلند ہوگیا۔ دوسرے دن جمعرات کو عصر کے وقت کعبہ کی شامی دیوار دونوں طرف سے گر گئی اور اس کے ساتھ مشرقی دیوار کا کچھ حصہ بھی۔ مغربی دیوار بھی دونوں طرف سے چھٹے حصے کے بقدر گرگئی، چھت کا کچھ حصہ بھی گر گیا، چنانچہ سلطان مراد نے دوبارہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ ایک سال میں یہ تعمیر مکمل ہوئی، اس طرح جس طرح حجاج نے بنوائی تھی۔ سلطان مراد کی تعمیر ہمارے اس دور تک باقی ہے۔

حضرت علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:

(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر

(۲) زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس (۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے 

(۳) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔

حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں  
معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔


Share this article :

Post a Comment

 
Design Template by panjz-online | Support by creating website | Powered by Blogger