Pakistan Tehreek-e-Insaf

Pakistan Tehreek-e-Insaf
News Update :
Home » , » History of Derawar fort, Cholistan Desert. قلعہ دراوڑ

History of Derawar fort, Cholistan Desert. قلعہ دراوڑ

Penulis : Unknown on Wednesday 12 August 2015 | 16:01


قلعہ دراوڑ

پاکستان کے نوادرات، فنون لطیفہ اور بیش قیمت ثقافتی ورثے میں چولستان کی تہذیب و تمدن، آثار قدیمہ اور کھنڈرات ایک اہم مقام کے حامل ہیں۔ زمانہ قدیم میں چولستان کی آب و ہوا اب سے بالکل مختلف تھی۔ چولستان میں کبھی دریائے ہاکڑہ ٹھاٹھیں مارا کرتا تھا۔ جو اب خشک کھدی ہوئی پگڈنڈی کی شکل میں موجود ہے اس کے دونوں اطراف کچی پکی اینٹوں کے تقریباً40 قلعوں کے کھنڈرات ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ دریائے ہاکڑہ ہندوستان کے دریائے گھاگھرا کی ایک شاخ ہے اس وجہ سے ویدک آریائوں کے نزدیک یہ دریا سرسوتی ندی کی طرح مقدس ہے غالباً ایک ہزار قبل ازمسیح میں دریائے ہاکڑہ کا پانی گنگا اور جمنا میں شامل ہو کر اپنے پیچھے خشک زمین چھوڑ گیا۔ البتہ دریائے گھاگھرا جنوب مغرب کی طرف بہتا رہا اور بیکانیر، جلسمیر کی ریاستوں کے ساتھ ساتھ صحرائے تھرکے مغربی حصوں سے بہتا ہوا سمندر میں جا گرا ۔اس قدیم دریا کے کناروں کے ساتھ ساتھ آج سے پچاس سال پہلے تک چار ہزار سے زیادہ قدیم عمارتوں کے باقی ماندہ حصے موجود تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ چار ہزار قبل ازمسیح سے اسلامی دور کے آغاز تک یہاں تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی کیسی کیسی کہانی محفوظ ہے۔

دریائے ہاکڑہ کے خشک راستے کے ساتھ ساتھ قلعوں کی قطار اس کہانی کا آخری حصہ معلوم ہوتی ہے غالباً مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں ارد گرد خون خوار ہمسایوں سے حفاظت کے خیال سے دفاعی لائن قائم کی۔ صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے میں بہاولپور کا انتظامی ڈویژن ہے یہ بہاولپور، بہاول نگر اور رحیم یارخان تین اضلاع پر مشتمل ہے۔ جس کا کل رقبہ 25617 مربع کلو میٹر ہے کم و بیش نصف رقبہ صحرا پر مشتمل ہے جسے ’’چولستان‘‘ کہتے ہیں لیکن یہ علاقہ چولستان سے زیادہ ’’روہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس علاقے کو مٹھن شریف کے روحانی صوفی شاعر خواجہ غلام فرید نے اپنے کلام کے ذریعے لافانی بنا دیا ہے۔ اس علاقے میں خانہ بدوش قبیلے رہتے ہیں جن کی تمام تر دولت ان کی بکریاں، اونٹ اور بھیڑیں ہوتی ہیں یہاں پانی نایاب ہے اور بارش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ اس بارش کے پانی کو چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں جمع کر لیا جاتا ہے۔ جنہیں ٹوبہ کہا جاتا ہے یہاں کی آب و ہوا میں رہنا نہایت مشکل ہے لیکن یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ مشکل مسکن ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ اپنے ماحول سے بہت پیار کرتے ہیں اس صحرا کی تہذیب بڑی پرانی ہے اور اس کی اپنی ایک رومان بھری ثقافت ہے جس میں بہادروں کے رزمیہ گیت بڑی ہی اہمیت رکھتے ہیں۔
---------------------------------
قلعہ دراوڑ

چولستان میں پائی جانے والی تاریخ اور طرز تعمیر کے آثار پاکستان کی نایاب آرٹ اور ثقافت میں سنہرے باب کی حیثیت رکھتے ہیں زمانہ قدیم کے چولستان کی آب و ہوا آج کے چولستان کی آب و ہوا سے بڑی مختلف ہے۔ چولستان میں پائے جانے والی عمارتوں میں دراوڑ کا قلعہ سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے کہ جیسے ریت کے سمندر میں ایک تباہ کن بحری جہاز لنگر انداز ہے 18 ویں صدی بعدازمسیح کے اوائل میں فوجی طرز تعمیر کا بنایا گیا یہ قلعہ اب بھی بڑی اچھی حالت میں محفوظ ہے یہ اب بھی بہاولپور کے نوابوں کے قبضے میں ہے جنہوں نے اپنے آپ کو اس علاقے میں قائم رکھا ہوا ہے۔ قلعہ دراوڑ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی بنیادیں اسلام سے قبل بنائے جانے والے قلعے کی بنیادوں پر رکھی گئی ہیں بعض روایات کے مطابق اسے بھاٹی یا بھاٹیہ نے تعمیر کیا تھا جس کا نام ڈیرہ سڈھ تھا اسے دیوراول بھی کہا جاتا ہے اس قلعے کا نام درحقیقت اس کے نام پر دیوراول رکھا گیا تھا لیکن بعدازاں اسے دراوڑ کہا جانے لگا۔

قلعہ دراوڑ کی اولین تاریخ کیا ہے اس کے متعلق ہمیں زیادہ معلومات نہیں ہیں البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ کیسے بہاولپور کے نواب محمد خان اول نے1733ء بعد از مسیح میں دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔ چھ سال بعد نادر شاہ نے نواب کے خطاب سے نوازا اور سندھ کا وسیع و عریض علاقہ انہیں عطاء کیا جس میں موجودہ شکار پور، لاڑ کانہ، سیوستان اور چہاہ ٹھیار کے علاقے شامل تھے دراوڑ کا علاقہ ان تمام علاقوں کے علاوہ عطاء کیا گیا تھا۔ دوسرے نواب محمد بہاول خان کے دور میں راول رائے سنگھ نے 1747ء بعداز مسیح میں اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ کم و بیش تیسرے نواب مبارک خان کے دور میں اسے رضا کارانہ طور پر اس شرط پر واپس کر دیا گیا کہ اس قلعہ کی آمدنی کا نصف انہیں ادا کیا جائے گا۔ بہاولپور کا علاقہ اور قلعہ دراوڑ تیمور شاہ نے 1788ء میں اپنے قبضے میں لے لیا اور اسے تھوڑے عرصے کے لیے شاہ محمد خان کی نگرانی میں دیدیا لیکن جلد ہی چوتھے نواب محمد بہاول خان دوئم نے ان دونوں علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔18 ویں صدی کے آخری راج میں دراوڑ کا علاقہ بہاولپور سٹیٹ کے سابق حاکموں کے کنٹرول میں تھا۔

شاہی قبرستان اور سنگ مرمر کی ایک بڑی خوبصورت مسجد قلعے کے باہر بڑے واضح طور پر دکھائی دیتی ہے یہ جگہ ایک بڑی عمدہ کاروباری مرکز خیال کی جاتی تھی۔ قلعہ دراوڑ میں چالیس برج، اندر ایک کنواں اور مرکزی دروازے میں پانی کا ایک بڑا تالاب ہے۔ قلعہ چوکور تقریباً220 میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور بل کھائے ہوئے دریا کے کنارے مشرقی سمت میں قلعے کا کلیدی پھاٹک ہے اس کے زیادہ تر برج ابھی تک قائم ہیں جس کے اوپر سیاہ اینٹوں سے اقلیدسی ڈیزائن نہایت خوبصورت ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ برجوں میں وقتاً فوقتاً کب اور کیسے ترمیم اور مرمت کی گئی ہے قلعے کی افقی دیواریں گردا گرد خندق میں سے اٹھتی ہوئی30-32 میٹر اونچی ہیں۔ جنوب مشرق کونے میں پانی کا ایک قدرتی تالاب جسے مقامی زبان میں(ٹوبا) کہتے ہیں قلعے میں بسنے والی انسانی اور حیوانی زندگیوں کی ضرورت پورا کرتا قلعے کے اندر بیشتر عمارات جو نواب کے فوجی دستوں اور شاہی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ابھی تک موجود ہیں۔ دیواروں کی اندرونی اونچائی 20 میٹر ہے جنوب مشرقی برج میں نواب کی ذاتی رہائش گاہ نہایت خوبصورتی سے منقش کی گئی ہے اور اس پر جھنڈا لہرا رہا ہے گویا کہ ایام رفتہ کی یاد دہانی کروا رہا ہے۔ ڈیرہ نواب صاحب کی طرف سے جہاں نواب صاحب کا رہائشی محل واقع ہے قلعہ دراوڑ قریب ہی واقع ہے۔ ایک پختہ سڑک جنوب کی سمت تقریباً15 کلو میٹر پر ایک پگڈنڈی سے جا ملتی ہے جو سیدھی قلعہ دراوڑ کو جاتی ہے۔ راستہ نہایت ہی جان خیز ہے اور صحرا میں سے گزرتے ہوئے ریت کے ٹیلے گہری کھدائی کے گڑھے ہیں جن میں بے شمار ہرن اور قسم قسم کے پرندے تفریح طبع کا بہترین سامان پیدا کرتے ہیں۔ قلعے میں داخل ہونے کے لیے پروانہ راہداری ڈیرہ نواب صاحب سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیاحوں کو چاہیے کہ روانگی سے قبل پینے کے پانی کی خاصی مقدار اپنے ہمراہ رکھیں کیونکہ (ٹوبے) کا پانی کھاری اور ناقابل استعمال ہے۔ قلعے دراوڑ کو جاتے ہوئے سرخ اینٹوں کے کھنڈرات دکھائی دیتے ہیں جو صحرا کے رتیلے پس منظر میں عجیب جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں۔ بہاول پور کے علاقہ چولستان کے جس حصہ میں قلعہ دراوڑ واقع ہے اس میں کئی ٹیلے، وسیع میدان اور ٹھیکریوں کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ بعض مورخوں نے دراوڑ کو راجہ داہر کا تعمیر کردہ قلعہ بھی کہا ہے اور کہا ہے کہ اس قلعہ کا اصل نام ’’داہر‘‘ تھا جو کثرت استعمال سے بگڑ کر ’’دراوڑ‘‘ ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے یہ قلعہ دراوڑ کی تسخیر کے بعد ملتان جاتے ہوئے راستہ میں فتح کیا تھا ممکن ہے یہ قلعہ دراوڑ ہی ہو۔ مقامی باشندوں میں قلعہ دراوڑ کے بارے میں ایک ضرب المثل عام ہے۔ اس ضرب المثل کا پس منظر یہ ہے کہ روہی(چولستان) کی سرابی کیفیت کے تحت قلعہ کی دیواریں دن میں سات آٹھ بار رنگ بدلتی ہیں۔ 
( ماخوذ از پاکستان کے آثارِ قدیمہ بشکریہ دنیا نیوز)




Share this article :

Post a Comment

 
Design Template by panjz-online | Support by creating website | Powered by Blogger