Pakistan Tehreek-e-Insaf

Pakistan Tehreek-e-Insaf
News Update :
Home » » انٹروپی-Entropy٭٭٭ (ایک استفسار کے جواب میں)

انٹروپی-Entropy٭٭٭ (ایک استفسار کے جواب میں)

Penulis : Unknown on Monday 31 August 2015 | 09:05

انٹروپی-Entropy٭٭٭ (ایک استفسار کے جواب میں)

میرے خیال میں انٹروپی کے حوالے سے انٹرنیٹ پر جو بھی مواد ہے اس کے لیے طبیعیات کے بنیادی فلسفے سے آگہی ضروری ہے۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں کہ آسان ترین الفاظ میں اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ لیکن جتنا بھی آسان کرکے اسے پیش کیا جائے، کہیں نہ کہیں الجھن تو رہے گی ہی سو اس کے لیے پیشگی معافی کی درخواست ہے۔
انٹروپی در اصل ایک پیمانہ ہے بے ترتیبی, ناکارگی یا انتشار (Disorder) کو ماپنے کا۔ اور اس قانون کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کائنات کے اندر بے ترتیبی میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ بلکہ اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ میں اس کو آسان لفظوں میں کہتا ہوں کہ "قابلِ استعمال توانائی (Energy)، ناقابلِ استعمال توانائی میں بدلتی جارہی ہے۔"
مزید آسان الفاظ میں یہ کہوں کہ انٹروپی مظاہر کے رونما ہوتے رہنے کا نام ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اور پھر جب مظاہر رو نماہوتے ہیں تو ان میں آرڈر سے ڈس آرڈر کی جانب سفر ہوتا ہے۔ یعنی جتنی انٹروپی بڑھتی جائے گی، کائنات میں ڈس آرڈر بڑھتا چلا جائے گا۔
اب سائنس کے لحاظ سے انٹروپی کو ٹائم کی نسبت سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ اور اس میں دو مختلف آراء ہیں کہ آیا انٹروپی (یعنی مظاہر کے رونما ہونے) کا نام "زمانہ" ہے، یا زمانہ الگ سے کوئی چیز ہے اور انٹروپی اسی زمانے کے تحت بڑھ رہی ہے۔ عام رائے یہی ہے کہ انٹروپی وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ البتہ میری رائے میں خود مظاہر کا رونما ہونا ہی وقت کا تصور ہے جو کہ ایک اضافی چیز ہے۔ بہر حال یہ بحث یہاں غیر متعلق ہے۔
سائنس دان اور مختلف فلاسفہ انٹروپی کے ریورس ہونے کے امکان پر بات کرتے پائے جاتے ہیں۔ یعنی ایسے سوالات پر بات ہوتی ہے کہ کیا یہ ڈس آرڈر دوبارہ آرڈر میں آسکتا ہے؟ کیا یہ بے ترتیبی دوبارہ ترتیب میں آسکتی ہے؟ کیا ایک کانچ کی بوتل ٹوٹنے کے بعد دوبارہ اسی طرح واپس جڑ سکتی ہے؟ اور سب سے بنیادی بات۔۔۔ کائنات جو کہ پھیل رہی ہے کیا وہ کسی وقت اپنی اسی ترتیبِ آغاز پر پہنچ سکتی ہے؟ اس مرحلے کو بگ کرنچ (Big Crunch) کہا جاتا ہے جو کہ بگ بینگ کا الٹ ہے۔ (تاہم اس میں تھرموڈائنیمکس کا دوسرا قانون ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے جس کی بحث یہاں محلِ نظر ہے)۔
ایک اور مثال سمجھیے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین پر جاندار اور ان جانداروں کی نقل و حرکت میں ٹیمپریچر کی مختلف حالات (Variation) کا بنیادی کردار ہے۔ یعنی زمین کے ہر ہر حصے پر مختلف ٹیمپریچر پایا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ ایک ہیٹ انجن تب کام کرتا ہے جب اس کے ارد گرد کا ماحول اتنا ٹھنڈا ہو کہ اس سے نکلنے والی توانائی کو جذب کر سکے۔
اسی طرح تمام حرکات یہاں تک کہ ہمارا چلنا پھرنا بھی اسی ٹیمپریچر کے متغیر اور مختلف ہونے کی وجہ سے ممکن ہو پارہا ہے۔ یہ ویرئیشن جتنی زیادہ ہے اتنا زیادہ آرڈر ہے۔ اور جتنی یہ ویرئیشن کم ہوتی جائے گی اتنا ہی ڈس آرڈر بڑھتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پانی ایک خاص ٹیمپریچر پر پہنچ کر ابلنے لگتا ہے لگتا ہے تو اس کی ناکارگی میں بھی ساتھ ہی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد جب پانی نارمل حالت میں آئے گا تو ارد گرد کے ماحول کو وہ ایسی توانائی دے گا جو اب بڑی حد تک ناقابلِ استعمال بن چکی ہوگی۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پانی کی انٹروپی بڑھنے یا گھٹنے کا مقصد یہ نہیں کہ انٹروپی بحیثیت مجموعی بڑھ اور گھٹ سکتی ہے۔ بلکہ اس کا معاملہ یہ ہے کہ ایک مخصوص سسٹم میں اگر ایک چیز کی انٹروپی میں کمی واقع ہوئی ہے تو کم از کم اسی مقدار میں یا اس سے زیادہ ارد گرد کی اشیاء میں انٹروپی میں اضافہ بھی ہو جائے گا۔ یوں اوسط انٹروپی یا تو بڑھتی جائے گی یا اپنی موجودہ حالت میں برقرار رہے گی۔ یعنی کہ مکمل کائنات کی اوسط انٹروپی ( ڈس آرڈر) میں یا تو اضافہ ہوگا یا پھر ایک ٹھہراؤ ہوگا۔ کمی نہیں آسکے گی۔
اب اس بات کو سمجھ لینے کے بعد مرحلہ آتا ہے کہ یہ سب کچھ اگر یونہی چلتا رہے گا تو عقلی لحاظ سے ایک وقت ایسا آئے گا کہ تمام کی تمام کائنات ایک ایقویلیبریم (Equilibrium) پر پہنچ کر ساکت ہوجائے گی۔ اس وقت پوری کائنات کا ٹیمپریچر ایک ہی جیسا ہوجائے گا۔ کوئی "حرکیاتی تبدیلی" باقی نہیں رہے گی۔ توانائی کی کوئی شکل اس وقت قابل استعمال نہیں رہے گی۔ ایٹم میں گھومتے الیکٹرانز بھی شاید نیوکلیس کے اندر ہی گر جائیں گے۔ وقت ہمیشہ کے لیے رک چکا ہوگا۔ اور یہ وہ مرحلہ ہے جسے بگ فریز (Big freeze) کہا جاسکتا ہے۔
گویا انٹروپی ہی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ کائنات کی عمر لامحدود نہیں۔ ورنہ جو ہمیں جاندار، پیڑ پودے نظر آتے ہیں یہ آرڈر کی اعلی شکل میں ہیں۔ یعنی جاندار زندہ ہی اس لیے ہیں کہ ان کے اندر انٹروپی کا لیول بہت کم ہے۔ اگر یہ کائنات اپنی عمر میں لامحدود ہوتی تو ہم اسے دیکھنے کے لیے موجود نہ ہوتے۔


Share this article :

Post a Comment

 
Design Template by panjz-online | Support by creating website | Powered by Blogger